اوپر والی عبارت جمیل نوری نستعلیق فونٹ میں لکھی
گئ ہے۔ مگر ورڈ پریس میں صحیح نہیں دکھ رہی تھی تو تصویر میں تبدیل کر کے لگای ہے۔ بے حد خوبصورت مگر ترقی سے محروم۔ اور نیچے والی عبارت نسخ فونٹ میں ہے۔ کافی بھدی مگر ورڈ پریس میں قابل قبول۔
کچھ عرصہ قبل پاکستانی تارکین وطن کے اجتماع میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ تقریبا سارے مہمان فرانسیسی زبان میں بات کر رہے تھے، سواے تین شرکاء کے جو اردو اور انگریزی میں بات کر رہے تھے۔ ان کیلیے سب نے کوشش کی کہ وہ اردو بولیں۔ اختتام کے قریب میری ان سے بات ہوی تو ایک بھائ نے افسوس کا اظہار کیا کہ جب اطالوی ساتھ ملتے ہیں تو اطالوی اپناتے ہیں، عربی عربی کا انتخاب کرتے ہیں، کیوں پاکستانی اپنی زبان بولنے سے کتراتے ہیں؟
کچھ وجوہات واضح ہیں جیسے کہ پاکستانیوں کی تعداد فرانس میں کم ہے، ہر کوئی کسی دوسرے پاکستانی سے رابطے میں نہیں لہذا اردو پر اتنی محنت نہیں ہو پاتی جتنی کہ ہونی چاہئیے۔ ہم فرض کر سکتے ہیں کہ پاکستانی والدین چاہتے ہیں کے انکی اولاد ان سے بہتر فرانسیسی بولے تو وہ خود بھی ان سے مقامی زبان میں ہی مخاطب ہوتے ہیں۔ ہر وقت فرانسیسی بولنے سے آپس میں بھائ بہن بھی اسی زبان کو بولتے ہیں۔ ان طور طریقوں کہ باعث اردو زبان سے تعلق مسلسل کمزور پڑتا جاتا ہے۔ اور جب ہم اردو کی طرف لوٹتے ہیں تو دراڑیں اتنی گہری ہو چکی ہوتی ہیں کہ شرمندگی کے سوا کوئی اور چارہ نہیں رہتا۔
نوجوان خواہ کسی نسل کے بھی ہوں، اپنے دوستوں سے مل جل کر چلنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کے لئے بے حد پسندیدہ ہوتا ہے اگر انکی نسل انکے خدوخال اور چہرے سے ظاہر نہ ہو۔ اگر کوئی ان کو عربی سمجھے تو سو بسم اللہ، اگر کوئی فرانسیسی سمجھے تو بہترین۔
اپنی انفرادیت کی قدر کیجئے، اپنی زبان بلاوجہ کھو دینے کی قدر کافی دیر سے سمجھ آتی ہے۔ مگر اب پچھتاے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ آپ جب پاکستان میں واپس جا کر اپنے خاندان سے بات چیت نہیں کر پاتے تو بےبسی، شرمندگی اود غصے کی زد میں آ کر، رشتے بکھر جاتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ والدین اس اثاثے کو ذندہ رکھنے کی کوشش میں اپنے بچوں کی شادیاں پاکستان میں کرتے ہیں۔ تاکہ زمین اور زبان سے رابطہ نسل در نسل برقرار رہ سکے۔
« جب ہم روانی سے گفتگو میں مصروف ہوتے ہیں، تو جب اردو کا مناسب لفظ نہیں یاد آتا تو جو منہ میں آتا ہے وہ بول دہتے ہیں۔ » جس میں ملاوٹ کا شرف صرف انگریزی کو ہی حاصل نہیں۔ پنجابی، مقامی زبان بھی اس میں پیش پیش ہیں۔ جوابا میرے ہم وطن نے عرض کیا کہ وہ ایک صاحب سے جو سفارت خانے میں کام کرتے ہیں، شناساء ہیں۔ اور جب وہ بولتے ہیں تو آہستہ آہستہ، مناسب الفاظ کا چناؤ کر کے، اپنی بات پروان چڑھاتے ہیں۔ اور یہ ایک علامت ہے، سمجھدار لوگوں کی۔ یہ بات اسلام میں بھی موجود ہے، جب ہم کہتے ہیں کہ پہلے سوچو پھر بولو۔ ان لوگوں کو سننے سے بڑا لطف آتا ہے۔
مزید افسردگی کی بات ہے کے ہم خالص، ٹھیٹھ کوئی بھی زبان نہیں بول سکتے۔ آپ کا کسی زبان پر مستحکم ہونا آپ کی سوچ پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ آپ کی زبان میں پختگی آپ کے شخصیت کا صحیح طور پر اظہار کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔ جب فرانسیسی بولنے کے باوجود ہم کسی مقامی محاورے میں ادل بدل کر دیتے ہیں، ساری محنت کا مزا کرکرا سا ہو جاتا ہے۔ نہ صرف فرانسیسی آپ کو ایک نقل چور کے خانے میں محدود نہیں کر دیتے، مگر یہ کہ خود پاکستانی، جو اس نقل میں میں ویسے تو آپ کے ساتھی ہیں، آپ کو اس درجہ پر نہیں رکھیں گے، جو کسی خالص ذبان بولنے والے کو۔ یہ آخری پہلو آپ کی سالہا سال کی محنت اکارت کر سکتا ہے۔آپ کی فرانسیسی شناخت کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ آپ جس شناخت کو کافی عرصہ قبل دفنا چکے ہوتے، آپ کے چہرے پر پھر آ چمکتی ہے۔ اس موضوع پر ایک علیحدہ مضمون لکھا جا سکتا ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہع گا کہ ہم اپنی اصل شناخت کو سچے دل سے قبول کر لیں ؟ اپنی بات کع یوں مختصر کرتی ہوں۔
یہ تو بیرون ملک اردو کی بات ہے دراصل اندرون پاکستان کی سر زمین پر بھی اردو زبان کی بہتر تعلیم میسر نہیں ۔
تقریب میں موجود ایک بھائ نے اظہار کیا کہ اپنی زبان کو اہمیت دینے کی ذمہ داری ہماری اپنی ہے۔ جب آپ اپنے والدین کی عزت کرتے ہیں لوگ دیکھا دیکھی انکی خدمت کرتے ہیں۔ جب ایک پوریکی پوری قوم اپنی زبان کو لے کر احساس کمتری کا شکار ہو جائے تو ملاوٹ بڑھے گی، اور زبان صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔ پستی کا شکار تو ابھی سے ہے۔
میرے سینے میں یہ بات ایسی آ کر اٹکی کے دل کیا کہ ابھی فورا ایک اردو مدرسہ کھولا جائے۔ مگر بات اور پیچیدہ ہوی کہ جب میں نے فیصلہ کیا کہ آج سے میں صرف اردو میں لکھوں گی، تو کئ اور مسائل سامنے آئے۔ مجھے اردو نسخ فونٹ میں بلکل بھی نہیں پسند۔ اور نستعلیق ابھی تک انڈرویڈ فونوں میں دستاب نہیں۔ اور اردو کو صحیح طور پر، اس جدید ترقی یافتہ وقت میں، نہ لکھ پانے کی وجہ سے، ملکی اور بیرون ملک رہایش پذیر پاکستانی اردو سے منہ پھیرنے پر مجبور ہیں۔
میں بے خبر تھی کہ اردو زبان کیلیے خوبصورتی کتنی اہم ہے۔ کہ اس خوبصورتی کا سمجھوتہ نہ کرنے کی قیمت میں ایک پوری زبان کو کھو دینا قابل قبول ہے ۔ بہت ہی آرٹسٹک سوچ ہے جس نے سارے وطن کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
ہماری اس محفل میں تو اس ذبان کا نعم لبدل تھا۔ مگر پاکستان میں قومی زبان کا ترقی نہ کرنا، اردو میڈیم اور انگلش میڈیم کے درمیان فاصلے لا رہا ہے، وہ کافی حد تک اور پیچیدہ اور سنگین ہیں۔