ابھی تک اسی لئے قطار میں کھڑی ہوں کے لاچار ہوں میں
صبر کی سوئ  ٹک ٹک آگے  بڑھنے سے قاصر لگتا ہے بیکار ہوں میں

کہاں رستہ بدلنا ہے کہاں پر موڑ مڑنا ہے کہ  اس شہر میں انجان ہوں میں
اس زندگی کے دائرے میں قید ہوں کے آزاد ہوں کہ میں ؟

اغیار کی مسرتوں کو دیکھ کر خوش ہوں یا پریشان ہوں میں ؟
اور خود اپنی خواہشات کا  گلستان یا قبرستان ہوں میں؟

وقت نہیں گزرتا، میں کل ہوں یا کل کی صبح ہوں میں
اے رب میں شرمسار ہوں کہ اپنی زندگی سے  آوازار ہوں میں

اپنی انا پرستی تیری چوکھٹ پر رکھ نہ پائ کہ نادان ہوں میں
صحیح  پھر یہ احساس ہے کہ پوری کی پوری گناہ گار ہوں میں

لپکتی ہوں بار بار تیری ہی طرف کے تنہا ہوں میں
گمراہی  کا  گھپ اندھیرا یا آشنائ کا چراغ ہوں میں

اپنی لپیٹ میں تو لے لے، کہ اک دل بیمار ہوں میں
بارش نہیں تیری رحمت کے طوفان کی طلبگار ہوں میں

آمین

photo : @joshhild

Vous pouvez également aimer :